Tuesday, September 1, 2015

چوہڑہ


اس وقت شاید جوانی کا آغاز ہی تھا جب چوہڑوں کی لڑکی اور میں سڑک پر ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے کسی اور نے تو کچھ نہ کہا لیکن اگلی صبح ابا جی کے دربار میں حاضری ہو گئی - اک چارپائی پر ابا جی بیٹھے تھے اور سامنے والی پر میں اور اماں جی - اماں جی کا اس مقدمے میں کوئی رول نہیں تھا- یہ ہمارا بچپن سے دیکھا ہوا تھا کہ فیصلے, لین دین, رشتے داروں میں آنا جانا, رکھ رکھاو کے سارے معاملوں میں ابا جی کی چلتی تھی- صبح صبح ہی جب یہ پیشی ہوئی تو چور کی داڈھی میں تنکے والے محاورے کے مطابق اندازہ تو ہو گیا تھا کہ بات چوہڑوں کی لڑکی کے مطلق ہی ہونی ہے - بات کو ٹالا تو جا سکتا تھا اک دو دن لیکن ابا جی نے بھی اسی گھر مین رہنا تھا اور میں نے بھی -
حکم آیا تو سہمے سہمے جا بیٹھے - پہلا سوال ہی یہ ہوا:
 "یہ چوہڑوں کی کڑی کچھ زیادہ ہی اچھی نہیں لگنے لگی تمھیں "
 میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ " چوہڑے کون سے انسان اور مسلمان نہیں ہوتے "-
 اس کے بعد جو ہوا وہ تو اک لمبی کہانی ہے - آج برسوں بعد یہ کہانی یاد اس لیے آئی کہ اک اور چوہڑی میری زندگی میں کہیں سے وارد ہوئی اور انجانے میں مجھے پھر برسوں پہلے والے دوراہے پر چھوڑ گئی ہے-
 وہ میرے دفتر میں کام کرتی تھی بس چار لوگوں کے آفس میں پانچویں وہ تھی - کام تو اس کا فون سننا اور کسی کو فوٹو کاپی یا سکین کی ضرورت ہوتی وہ اپنے کیمپوٹر سے لگے تھری ان ون پرنٹر سے یہ کام کر دیتی - خوبرو بھی اتنی نہیں تھی - لیکن بلکل عام نین نقش بھی نہ تھے - عمر کوئی ہو گی انیس بیس سال - اس کا گھرانہ جھگیوں میں رہتا تھا اب مجھے نہیں معلوم وہ کیسے بارہ جماعتیں پڑھ گئی تھی اور اوپر سے ابھی اس کی شادی تو دور منگنی بھی نہیں ھوئی تھی - جھگیوں رہنے والوں کے حساب سے دونوں عجیب باتیں تھیں -
دفتر میں وہ اک زندہ دل اور ہردلعزیز لڑکی تھی - غصہ کم ہی کرتی تھی لیکن جب کر لیتی تو اسے راضی کرنا جان جوکھوں کا کام تھا - میرے ساتھ دوسروں کی نسبت وہ تھوڑی زیادہ علیک سلیک تھی - وہ اپنے گھر اور گھر کےلوگوں کی باتیں بھی سنا لیتی تھی -
 چند روز پہلے اس کا باس سے کسی بات پر تو تکرار ہو گیا - وہ ہمیں تو پتا چلا جب دوپہر کے کھانے پر اس نے اعلان کیا میں اگلی پہلی سے نوکری چھوڑ رہی ہوں –
 بس پھر پہلے تو کوئی کہ رہا تھا نئی نوکری مل گئی؟
 کتنی تنخواہ ہے؟
اس سے ڈھنگ کی پوسٹ ہے ؟
 میں نے کہا کہیں ہاتھ تو پیلے نہیں رہے تمھارے ؟
 لیکن اس دوران اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو چکے تھے - سب سنجیدہ ہو گئے اور ہمدری میں مسلے مسائل پوچھنے لگے –
 آخر اس نے چپ توڑی اور بتایا کہ باس سے لڑائی ہو گئی ہے –
 ہم جو روز باس سے لڑتے تھے اور اکثر جھڑکیاں بھی لیتے تھے ہمارے لیے اس کا یہ فیصلہ عجیب تھا - خیر سمجھانے بجھانے اور قائل کرنے کی سب نے کوشش کی - اور بتایا کہ دفع کرو اس بات نوکرئیوں ایسی بک بک تو ہوتی ہے - سب نے اپنے جھگڑوں اور جھڑکیوں کی مثالیں دئیں - لیکن اس نے نہیں ماننا تھا اور نہ ہی وہ مانی - اور پہلی کو سچ مچ وہ نوکری چھوڑ گئی -
 اس کے جانے کے پہلے دو تین دن تو میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ چھٹیوں پر ہے اور واپس آ جائے گی - لیکن جب پورا ہفتہ وہ نہ آئی وہ آفس میں یہ خبر پکی جو گئی کہ اس نے نوکری چھوڑ دی ہے -
 پتا نہیں کیوں اور کیسے اگلے ہفتے سے میرا دل اچاٹ سا رہنے لگا - کھانا کم ہو گیا, باتیں کم ہو گئیں - یہ بات ساتھ کام کرنے والوں نے بھی محسوس کی اور اک دو نے تو اظہار بھی کر دیا - جب واقعات کا جائزہ لیا تو پتا چلا. عالیہ کی محبت نے دل میں ڈیرے ڈال لیے ہیں اور میرا حال بھی اس شخص جیسا تھا جسے "جب معلوم ہوا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا – "
 میں اس محبت کا اظہار اور اقرار بھی کسی سے نہیں کر سکتا تھا اب میں وہ بیس سال پہلے والا جوان نہیں تھا - اب میں نمبر داروں کے بیٹے کے ساتھ ساتھ ایم فل ٹیلی کام انجینر تھا- اور اپنے گاؤں کا پہلا انجینر تھا اور اپنے خاندان میں تو اگلے دس برس میں بھی کوئی اتنا پڑھا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا - اگلے تین ہفتوں میں جہاں بے چینی نے اک پل چین نہ لینے دیا وہاں صحت بھی گراوٹ کا شکار ہو گئی - اس سے رابطے کی بھی کوئی سیبیل نہیں کیونکہ موبائل فون اس کے پاس نہیں تھا - دوسرا اگر کوئی سیبیل ہوتی بھی تو یہ معلوم نہ تھا کہ محبت کی یہ لت یک طرفہ ہے کہ دو طرفہ - کیونکہ جب تک ساتھ تھے اور اس موضع کے بارے اک دفعہ بھی کنایاً بھی بات نہیں ہوئی تھی -
بہت سے افسانے اور کہانیاں لکھی بہت پہلے جا چکی ہوتی ہیں لیکن وہ بتتی وہ بعد میں ہیں اور عالیہ بھی غلام عباس کے "فراموش" کی طرع مجھ پر بیت گئی-
 اب اپنے معاشرتی مقام کی وجہ سے مجنون بھی نہیں بنا جا سکتا بس ایسے ہی کبھی کبھی دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش اس معاشرے میں سب انسان بستے اور کوئی چوہڑہ نہ ہوتا-

Monday, May 20, 2013

لکھ دیں اک بات پرانی سی

لکھ دیں اک بات پرانی سی
جو تری میری تھی کہانی سی
محبت کہا کرتے تھے اسے
جو کفیت تھی اک ہیجانی سی
کھو گئی ہے گردشِ دوراں میں
اک جوڑی تھی جو آسمانی سی
مل جایئں کسی روز،کسی موڑ پر
خواہیش اٹھتی ہے دل میں انجانی سی
کتنا انمول تھازادہ راہ ساتھ  تیرا
اب تو قافلہ میں ہے ویرانی سی

Friday, May 3, 2013

اندھے کو کوئی دکھا نہیں سکتا

اندھے کو کوئی دکھا نہیں سکتا
بہرے کو کوئی سنا نہیں سکتا
تاریخ کے چوراہے پر سونے والے کو
چھترول سےکوئی اٹھا نہیں سکتا
مالک لگائیں گھر کو آگ خود
وہ گھر کوئی بچانہیں سکتا
الٹے لٹکے ہوئے بندروں کو
سیدھا منظر کوئی دکھا نہیں سکتا
اندھری غار کے قید چمگادڑوں کو
روشنی ہے، کوئی سمجھا نہیں سکتا

Monday, March 25, 2013

بھونکو--------

ہماری اک  خاتون ایم پی اے ہیں بلکہ اب تو تھی ہو گئ ہیں - سندھ سے ان کا تعلق ہے- ان کی اک ویڈیو لیک ہوئی تھی جو آج میری نظر سے بھی گذری- واہ جی واہ کیا دبنگ خاتون ہیں-  اس مردانہ وجاہیت کے ساتھ مردوں کی ماں بہن ایک کر رہی ہے کہ میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا اس بی بی سے دور پار کی بھی تعلق داری نہیں- صرف یہی نہیں موصوفہ خود یا کسی ساتھی خاتون سے ان مردوں کا منہ بھی کالا کروا رہی ہے- حالانکہ اس معاشرے میں مرد منہ کالا خود کر لے تو کر لے کسی عورت میں ہمت نہیں کہ وہ مرد کا منہ کالا کرے-
گوگل پر ان کے بارے مزید جاننے کے لیے تلاش کیا تو معلوم ہوا  مشہور بات یہ ہے، نام ہے ان کا راحلیہ مگسی- اور یہ میر نادر مگسی صاحب کی خاتونِ خانہ ہیں- ویڈیو دیکھ کر تو میر سے اظہار ہمدری کرنے کو دل کر رہا- پتا نہیں میر صاحب کیسے برداشت کرتے ہوں گئے- لیکن کچھ جگہوں پر لکھا ہے کہ یہ خاتون میر صاحب کی فرسٹ کزن ہے-  جن کا تعلق پی پی پی سے ہے-
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا تعلق تو مگسی خاندان سے ہے لیکن یہ کسی فنگشنل لیگ کے ایم پی اے کی بہن ہیں-
خیر ہم نے سوچاکہ اس خاتون کا چہرہ کسی اور فوٹو سے بھی دیکھ لیا جائے تاکہ برے وقت کی طرع یہ خاتون کہیں متھے لگ جائیں تو بندہ منہ بچا کر نکل لے- اسی ویڈیو کی بنیاد پر کچھ نون لیگ کے جیالوں نے یہ فوٹو شئیر کی تھی





 اس اوپر والی تصویر بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قوم اختلافِ رائے کہ معاملے میں کیا اخلاقیات رکھتی ہے- دورسری بات میاں صاحب کے داماد کی گرفتاری کو جس طرع پیش کیا گیا ہے اس کا نیتجہ بھی ہم لوگ دیکھ چکے ہیں- اس ویڈیو میں اور میاں صاحب کے کی صاحبزادی کے طرزِ عمل میں کوئی خاص فرق نہیں-
لیکن جو اچنبھے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ 21 مارچ کو "نئی بات" اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے- کہ راحلیہ مگسی، نون لیگ میں آ گھسی ہیں- اور ان کو ایم این اے کا ٹکٹ بھی دینے کی یقین دھانی کروائی گئ ہے-



اب میں تو حیران پریشان بیٹھا ہوں کہ "کیا بنے کا ہارئیوں کا" اور کون ان کی آواز اٹھاے گا- اور کس کا آقا کس کے خلاف منہ کھولے گا-
لیکن جی میرا تو میاں صاب کو اک مشورہ ہے کہ اگر وہ ویڈیو میں راحیلہ مگسی نہیں لیکن یہ پکی بات ہے کہ خاتون مگسی خاندان سے ہی ہے-بھگیاڑوں کی نسل میں بھگیاڑ ہی پیدا ہوتے ہیں-اس لیے میاں صاب اگر کبھی آپ کا منہ کالا کرنے کا معاملہ ہو تو دیکھ لیجئے گا کہ کوئی ویڈیو تو نہیں بنا رہا- باقی یہ آنیاں جایناں اس قوم کو بھول جانی ہیں-

Monday, March 18, 2013

چمڑے کی عینک

ذکر لٹ جانے کا کرتے ہیں جب بھی 
 نام ترا ہی لیتے ہیں لوگ اب بھی
 نکلو، مل جائےگا اندھری راہیوں میں
منزل کا سراغ،کوئی چراغِ شب بھی
چمڑے کی عینک سے جو دنیا دیکھو
اک سا لگے دن بھی، شب بھی
لائنوں میں لگی خلقت سوچے تو سہی
کچھ تو ہے اس کا سبب بھی
یوں نہ بدنام کرو امیرِ شہر کو
کچھ تو ملحوظ رکھو، ادب بھی

Saturday, February 16, 2013

لاہور کتاب میلہ

کتابیں پڑنا تو اک بہیت اچھا شوق ہے لیکن کتابیں خریدنا اور جمع کرنا بھی اک مزے کا شوق ہے- اک تحریر کا اک مقصد تو لاہور اور اس کے گردونواح میں رہنے والے دوستوں کو مطلع کرنا تھا کہ لاہور میں  ایکسپو سنٹر میں آج کل "کتاب میلہ" لگا ہوا ہے- جس کی مشہوری تو " بک فیر" کے نام سے کی گئ ہے- ویسے تو جی یہ "چودہ" فروری کو شروع ہوا تھا تو اس مناسبت سے اس میلے کا نام " بک افیئر " بھی رکھا جا سکتا تھا-  تاکہ اس قوم کو پتا چلتا کہ "افیئر" صرف صنفِ مخالف سے ہی نہیں اور بھی بڑی چیزیں ہیں قابلِ محبت دنیا میں- یہ کتاب میلہ 14 فروری سے 18 فروری تک جاری رہے گا-
بہت سارے مقامی اور بین الاقوامی ناشروں کے سٹالز ہیں- ایک ہی چھت تلے آپ کو تقریبا ہر موضع پر اور ہر عمر کے لیے کتابیں مل جائیں گی- اک جو سب اچھی بات ہے وہ یہ ہے کہ اکثر سٹالز پر آپ کو 50 فی صد تک رعایت بھی مل جائے گی- اس لیے اگر آپ کتابوں کے شوقین ہیں  تو پھر جیب میں ذرا کھلے پیسے ٹھونس کر جایئے گا کیونکہ وہاں اک سے بڑھ کر اک کتاب سستے نرخوں میں آپ کو مل جائے گی-
انگریزی کے سٹالز بھی میں چوری چوری دیکھ آیا ہوں- حالانکہ انگریزی ادب اور فکشن کیا پڑھنا ، میں اب بھی ادھر ڈکشنری، اور گرائمر کی کتابیں ہی دیکھ کر آجاتا ہوں- انگریزی کتب پر بھی 15 سے لیکر 30 فی صد تک رعایت ہے- اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ تھوک کے مال کا بھی ڈھیر ہے جہاں 25 سے لیکر 500 تک کی کتب الگ الگ پڑی ہیں-
بچوں کے لیے کہانیوں اور سرگرمیوں کی کتابیں بھی بڑی تعداد میں ہیں- اور ان میں کہیں تھوک والی ڈھیرئیاں کہیں کہیں نظر آجاتی ہیں- اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ کو انہیں ضرور اس کتاب میلے میں لے کر جانا چاہیے-
اس کے علاو اک اور سٹال آپ کی توجہ اور خیرانگی کا بحث بنے گا وہ  ہے جی "خاندانی منصوبہ بندی" کا سٹال- اب اک کتاب میلے میں اس سٹال کا کیا تک بنتی ہے یہ تو اربابِ اختیار ہی جانتے ہیں پر میرے خیال میں اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی وہاں- ویسے اگر آپ کے بہت زیادہ بچے ہیں تو پھر آپ اکیلے اس سٹال کا وزٹ کر لیں- اس سٹال پر بھی قابلِ فروخت چیزیں چھپا کر رکھی ہوئی ہیں اور ان پر بھی 50 فی صد تک رعایت ہے- کیونکہ چیزیں چھپی ہوئی ہیں اس لیے میں نام بھی نہیں چھاپ رہا-
آخر میں آج خریدی مزاحیہ شاعری کی کتاب سے اک غزل-
بے فضول سی گل پر اڑ کر ستے رئے
وہیڑے اندر دھپ میں تڑ کر ستے رئے
راتیں ڈاکو پنڈ میں ہونجا پھیر گئے
پہرے والے ڈانڈا پھڑ کر ستے رئے
اُس کے گیجے گھونے سر کی یاد میں ہم
رنگلے پلنگ کا پاوا پھڑ کر ستے رئے
بیگم سے ڈر کر بھاگے تو دو دن تک
بے بے کے کمرے میں وَڑ کر ستے رئے
زیادہ تفصیل کچھ  مجبوری کے تحت نہیں لکھی- باقی آپ کو بتانا تھا کہ میں کتاب میلے سے ہو آیا ہوں :)- آپ جو شوقین ہیں وقت نکالیں کتابیں آپ کی منتظر ہیں لاہور ایکسپو سنٹر پر-

Wednesday, February 6, 2013

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

اس ملک میں دو چیزوں کا حساب اگر جنات کو بھی رکھنا پڑے تو وہ بھی دوسرے دن نوکرئیوں سے استیفا دے کر اپنے بال بچے میں جاکر چین سے رہیں- اک چیز تو ہے کرپشن اور دوسرا سی این جی اسٹیشنوں کا منافع- ان کا حساب کرنے کے لیے آئی بی ایم کے  سپر کمپیوٹر بھی چکرا کر" سڑ سڑو" جاہیں-
عام آدمی کے بھلے کا کام حکم اگر کہیں سے آ بھی جائے تو ہزاروں "بھگیاڑ" راستے میں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ عام کی بجائے یہ بھی ہمارے پیٹ میں چلا جائے، اور عوام رہ جایئں "روتے کرلاتے"- چند سالوں سے سی این جی اسٹیشن لگانا ایک کامیاب بزنس بنا ہوا ہے- اک وقت تھا کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہو گیا تھا کہ ملک میں بچے پیدا ہونے کی رفتار زیادہ ہے یا سی این جی اسٹیشن لگنے کی-
جیسے جیسے ملک "ترقی" کی منازل طے کرتا گیا اور بجلی "آنے" کا وقت، بجلی "نہ آنے" کے وقت سے کم ہوتا گیا – تو اسٹیشن مالکان نے بڑے بڑے جنریٹر رکھ لئے اور ہر جگہ " آیئں آپ کو پھر سے جوان بنا دئیں" کے اشتہاروں کی طرع یہ لکھا نظر آنے لگا "جنریٹر کی سہولت میسرہے"-
جب حکومت کی نظر میں یہ سستا ایندھن کھٹکنے لگا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اس قیمت کو پیٹرول کے 60٪ کیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ ہفتے میں تین دن ہی سی این جی ملے گی- اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے "ٹٹے چھتر" کی طرع سی این جی کی قیمت 40 روپے فی کلو سے 88 روپے فی کلو تک جا پہنچی- اس دوران جناب جیریٹر اور ڈسکاؤٹ ملتے رہے اور اسٹیشن اپنے پوری پیداواری صیلاحیت پر چلتے رہے-
پھر سپریم کورٹ نے جب اس کا نوٹس لیا تو اوگرا کے کرتے دھرتے کوئی جواب نہ پیش کرسکے کہ 20 روپے لاگت والا ایندھن 88 روپے میں کیوں فروخت ہو رہا ہے- اس دوران یہ بھی انکاشاف ہوا کہ کوئی 38 روپے فی کلو گرام سی این جی اسٹیشن مالکان کو ادا کیا جا را ہے کچھ منافع کی مد میں اور کچھ  پیداواری لاگت کی مد میں- خیر اوگرا کے صابان نے "آپو آپ" قیمت کم کرکے 54 روپے مقرر کر دی- بس پھر کیا تھا کہ سی این جی ایسوسی ایشن کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنا شروع ہو گئ-
اب جناب وہ رونا مچایا ان مگرمچھروں نے کہ رہے رب کا نام- صرف رونا ہی نہیں جنریٹر بند ہو گئے- ادھر بجلی بند ادھر گیس کی فراہمی بند۔ جہاں ایک ایک اسٹیشن پر آٹھ آٹھ میشینیں کام کرتی تھیں صرف ایک یا دو میشین سے گیس بھری جاتی- اور ساتھ ہی ساتھ سینہ زوری کرتے ہوتے گیس فراہمی والے دن بھی اسٹیشن بند کرنا شروع ہو گئے- اور مطالبہ ہونے لگا کہ ریٹ بڑھاؤ-  مذکرات ہوتے رہے اور ریٹ پر مک مکا نہ ہو سکا- سی این جی ایسوسی ایشن کا مطالبہ کہ عوام کو سستی گیس دینے کی بجائے ہمارا منافع بڑھاؤ-
اسی دوران سردی شروع ہو گئ اور ایس این جی پی ایل نے سی این جی اسٹیشن غیر معیانیہ مدت کے لئے بند کر دیے- اب ہم نے تو اوکھے سوکھے پیٹرول پر گذارہ کرلیا- اب جناب ،  سی این جی ایسوسی ایشن کی تو "بھاں" کی بول گئ ہے- پرسوں غیاث پراچہ صدر سی این جی ایسوسی ایشن جن کو غیاث پٹاخہ کہنے کو دل کرتا ہے – پریس کانفرنس میں رہ پڑے ہیں کہ جی سی این جی کا پرانا تین روزہ شیڈول بحال کیا جائے نہیں تو ہم دھرنہ دیں گے اور احتجاج کریں گے- اس بار غیاث صیب نے قیمت کے بارے کوئی ارشاد نہیں فرمایا- لیکن مزے تو بات ہے چند دن پہلے تک صرف قیمت بڑھانا ہی اک مسلہ تھا- شاید اسی بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا –
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا