Saturday, February 16, 2013

لاہور کتاب میلہ

کتابیں پڑنا تو اک بہیت اچھا شوق ہے لیکن کتابیں خریدنا اور جمع کرنا بھی اک مزے کا شوق ہے- اک تحریر کا اک مقصد تو لاہور اور اس کے گردونواح میں رہنے والے دوستوں کو مطلع کرنا تھا کہ لاہور میں  ایکسپو سنٹر میں آج کل "کتاب میلہ" لگا ہوا ہے- جس کی مشہوری تو " بک فیر" کے نام سے کی گئ ہے- ویسے تو جی یہ "چودہ" فروری کو شروع ہوا تھا تو اس مناسبت سے اس میلے کا نام " بک افیئر " بھی رکھا جا سکتا تھا-  تاکہ اس قوم کو پتا چلتا کہ "افیئر" صرف صنفِ مخالف سے ہی نہیں اور بھی بڑی چیزیں ہیں قابلِ محبت دنیا میں- یہ کتاب میلہ 14 فروری سے 18 فروری تک جاری رہے گا-
بہت سارے مقامی اور بین الاقوامی ناشروں کے سٹالز ہیں- ایک ہی چھت تلے آپ کو تقریبا ہر موضع پر اور ہر عمر کے لیے کتابیں مل جائیں گی- اک جو سب اچھی بات ہے وہ یہ ہے کہ اکثر سٹالز پر آپ کو 50 فی صد تک رعایت بھی مل جائے گی- اس لیے اگر آپ کتابوں کے شوقین ہیں  تو پھر جیب میں ذرا کھلے پیسے ٹھونس کر جایئے گا کیونکہ وہاں اک سے بڑھ کر اک کتاب سستے نرخوں میں آپ کو مل جائے گی-
انگریزی کے سٹالز بھی میں چوری چوری دیکھ آیا ہوں- حالانکہ انگریزی ادب اور فکشن کیا پڑھنا ، میں اب بھی ادھر ڈکشنری، اور گرائمر کی کتابیں ہی دیکھ کر آجاتا ہوں- انگریزی کتب پر بھی 15 سے لیکر 30 فی صد تک رعایت ہے- اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ تھوک کے مال کا بھی ڈھیر ہے جہاں 25 سے لیکر 500 تک کی کتب الگ الگ پڑی ہیں-
بچوں کے لیے کہانیوں اور سرگرمیوں کی کتابیں بھی بڑی تعداد میں ہیں- اور ان میں کہیں تھوک والی ڈھیرئیاں کہیں کہیں نظر آجاتی ہیں- اگر آپ کے بچے ہیں تو آپ کو انہیں ضرور اس کتاب میلے میں لے کر جانا چاہیے-
اس کے علاو اک اور سٹال آپ کی توجہ اور خیرانگی کا بحث بنے گا وہ  ہے جی "خاندانی منصوبہ بندی" کا سٹال- اب اک کتاب میلے میں اس سٹال کا کیا تک بنتی ہے یہ تو اربابِ اختیار ہی جانتے ہیں پر میرے خیال میں اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی وہاں- ویسے اگر آپ کے بہت زیادہ بچے ہیں تو پھر آپ اکیلے اس سٹال کا وزٹ کر لیں- اس سٹال پر بھی قابلِ فروخت چیزیں چھپا کر رکھی ہوئی ہیں اور ان پر بھی 50 فی صد تک رعایت ہے- کیونکہ چیزیں چھپی ہوئی ہیں اس لیے میں نام بھی نہیں چھاپ رہا-
آخر میں آج خریدی مزاحیہ شاعری کی کتاب سے اک غزل-
بے فضول سی گل پر اڑ کر ستے رئے
وہیڑے اندر دھپ میں تڑ کر ستے رئے
راتیں ڈاکو پنڈ میں ہونجا پھیر گئے
پہرے والے ڈانڈا پھڑ کر ستے رئے
اُس کے گیجے گھونے سر کی یاد میں ہم
رنگلے پلنگ کا پاوا پھڑ کر ستے رئے
بیگم سے ڈر کر بھاگے تو دو دن تک
بے بے کے کمرے میں وَڑ کر ستے رئے
زیادہ تفصیل کچھ  مجبوری کے تحت نہیں لکھی- باقی آپ کو بتانا تھا کہ میں کتاب میلے سے ہو آیا ہوں :)- آپ جو شوقین ہیں وقت نکالیں کتابیں آپ کی منتظر ہیں لاہور ایکسپو سنٹر پر-

Wednesday, February 6, 2013

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

اس ملک میں دو چیزوں کا حساب اگر جنات کو بھی رکھنا پڑے تو وہ بھی دوسرے دن نوکرئیوں سے استیفا دے کر اپنے بال بچے میں جاکر چین سے رہیں- اک چیز تو ہے کرپشن اور دوسرا سی این جی اسٹیشنوں کا منافع- ان کا حساب کرنے کے لیے آئی بی ایم کے  سپر کمپیوٹر بھی چکرا کر" سڑ سڑو" جاہیں-
عام آدمی کے بھلے کا کام حکم اگر کہیں سے آ بھی جائے تو ہزاروں "بھگیاڑ" راستے میں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ عام کی بجائے یہ بھی ہمارے پیٹ میں چلا جائے، اور عوام رہ جایئں "روتے کرلاتے"- چند سالوں سے سی این جی اسٹیشن لگانا ایک کامیاب بزنس بنا ہوا ہے- اک وقت تھا کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہو گیا تھا کہ ملک میں بچے پیدا ہونے کی رفتار زیادہ ہے یا سی این جی اسٹیشن لگنے کی-
جیسے جیسے ملک "ترقی" کی منازل طے کرتا گیا اور بجلی "آنے" کا وقت، بجلی "نہ آنے" کے وقت سے کم ہوتا گیا – تو اسٹیشن مالکان نے بڑے بڑے جنریٹر رکھ لئے اور ہر جگہ " آیئں آپ کو پھر سے جوان بنا دئیں" کے اشتہاروں کی طرع یہ لکھا نظر آنے لگا "جنریٹر کی سہولت میسرہے"-
جب حکومت کی نظر میں یہ سستا ایندھن کھٹکنے لگا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اس قیمت کو پیٹرول کے 60٪ کیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ ہفتے میں تین دن ہی سی این جی ملے گی- اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے "ٹٹے چھتر" کی طرع سی این جی کی قیمت 40 روپے فی کلو سے 88 روپے فی کلو تک جا پہنچی- اس دوران جناب جیریٹر اور ڈسکاؤٹ ملتے رہے اور اسٹیشن اپنے پوری پیداواری صیلاحیت پر چلتے رہے-
پھر سپریم کورٹ نے جب اس کا نوٹس لیا تو اوگرا کے کرتے دھرتے کوئی جواب نہ پیش کرسکے کہ 20 روپے لاگت والا ایندھن 88 روپے میں کیوں فروخت ہو رہا ہے- اس دوران یہ بھی انکاشاف ہوا کہ کوئی 38 روپے فی کلو گرام سی این جی اسٹیشن مالکان کو ادا کیا جا را ہے کچھ منافع کی مد میں اور کچھ  پیداواری لاگت کی مد میں- خیر اوگرا کے صابان نے "آپو آپ" قیمت کم کرکے 54 روپے مقرر کر دی- بس پھر کیا تھا کہ سی این جی ایسوسی ایشن کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنا شروع ہو گئ-
اب جناب وہ رونا مچایا ان مگرمچھروں نے کہ رہے رب کا نام- صرف رونا ہی نہیں جنریٹر بند ہو گئے- ادھر بجلی بند ادھر گیس کی فراہمی بند۔ جہاں ایک ایک اسٹیشن پر آٹھ آٹھ میشینیں کام کرتی تھیں صرف ایک یا دو میشین سے گیس بھری جاتی- اور ساتھ ہی ساتھ سینہ زوری کرتے ہوتے گیس فراہمی والے دن بھی اسٹیشن بند کرنا شروع ہو گئے- اور مطالبہ ہونے لگا کہ ریٹ بڑھاؤ-  مذکرات ہوتے رہے اور ریٹ پر مک مکا نہ ہو سکا- سی این جی ایسوسی ایشن کا مطالبہ کہ عوام کو سستی گیس دینے کی بجائے ہمارا منافع بڑھاؤ-
اسی دوران سردی شروع ہو گئ اور ایس این جی پی ایل نے سی این جی اسٹیشن غیر معیانیہ مدت کے لئے بند کر دیے- اب ہم نے تو اوکھے سوکھے پیٹرول پر گذارہ کرلیا- اب جناب ،  سی این جی ایسوسی ایشن کی تو "بھاں" کی بول گئ ہے- پرسوں غیاث پراچہ صدر سی این جی ایسوسی ایشن جن کو غیاث پٹاخہ کہنے کو دل کرتا ہے – پریس کانفرنس میں رہ پڑے ہیں کہ جی سی این جی کا پرانا تین روزہ شیڈول بحال کیا جائے نہیں تو ہم دھرنہ دیں گے اور احتجاج کریں گے- اس بار غیاث صیب نے قیمت کے بارے کوئی ارشاد نہیں فرمایا- لیکن مزے تو بات ہے چند دن پہلے تک صرف قیمت بڑھانا ہی اک مسلہ تھا- شاید اسی بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا –
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

Friday, February 1, 2013

سر راہے، سڑراہے

لو جی لکھنی تو ہم نے اردو کانفرنس کی دوسری قسط تھی لیکن کافی لوگ اس پر طبع آزمائی کر چکے ہیں اور آپ کو دوسری قسط کا اتنا انتظار نہیں ہوگا –لیکن دوسری قسط آئے گی ضرور بشرطِ زندگی-
کہتے ہیں برسات کے اندھے کو ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے- اور اسی سے ملتی جلتی بات میں بھی آج کہہ رہا ہوں کہ تعصب کے اندھے کو سڑا سڑا ہی نظر آتا ہے- معاملہ کچھ یوں ہے کہ "نوائے وقت" کو نظریہ پاکستان اور پاکستانی اقدار کا علمبرار گردانا جاتا ہے- اب اگر نہیں تو میرے سے پہلے والی نسل یہی بات سمجھتی تھی-  اب جیسے جیسے نظریہ پاکستان "کھوہ کھاتے" میں ڈالا جا رہا ہے بلکہ ڈالا جا چکا ہے تو "نوائے وقت" نے بھی مسلم لیگ "نون" کو ہی "نظریہ پاکستان" سمجھ لیا ہے-
اس طرع کا سڑا ہوا تعارف کروانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مذکورہ  اخبار میں "سر را ہے" کہ عنوان سے اک کالم لکھا جاتا ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز میں مٹی پلید کی جاتی ہے- لیکن کل (31-01-13) کے کالم میں اسطرع بے تکی باتیں لکھی ہوئی تھیں کہ بس جی، یہی لگا لکھنے والے کی آنکھوں پر یا تو لفافہ باندھا گیا وہ بھی اتنا موٹا کہ نظر نہ آئے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے- یا پھر تعصب میں اتنا اندھا ہو گیا کہ اسے اچھی بھلی بات بھی سڑی ہی لگی- یہ بات تو اردو کانفرنس میں بھی ہوئی تھی کہ اک تو مین سٹریم میڈیا " میڈیا مالکان" کی پالیسی سے باہر جا کر کچھ نہیں لکھ سکتے ہیں اور دوسرا اس حمام میں بھی اکثر لوگ ننگھے ہیں اور اپنے گرد لفافوں کی، پلاٹوں کی،مفتے حج ،عمر کی ، یا پالیسی کی 'بکل' مارے ہوئے ہیں-  
اپنے عمران بھائی ہیں ناں- جی جی وہی ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال والے- ابھی بھی نہیں سمجھ آئی "تحریک انصاف" والے یار- ان سے کسی نے پوچھا کہ خان صاب شادی کا کیا ارادہ ہے تو خان صاب نے کہہ دیا کہ اب شادی کی عمر نہیں رہی- خان صاب نے یہ کہہ کر "مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے"، اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی یا پھر یہ کہاوت خان صاب نے سنی نہیں ہوگی- لیکن اس کی جو سب سے بڑی وجہ مجھے لگ رہی ہے کہ شادی اکثر بندے اک دفعہ ہی کرکے اسے نبھاتے نبھاتے "نبھ" جاتے ہیں- اور جو آزاد ہو جاتے ہیں وہ دوبارہ اس کا نام کم ہی لیتے ہیں- بہرحال جو وجہ بھی ہو  خان صاب بہتر جانتے ہیں- کوئی حکیمی مسلہ بھی ہو سکتا ہے-
اس سادہ سی بات پر "سر را ہے" جسے "سڑ را ہے" کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے یوں راقم ہوا ہے- " شادی کی عمر اگر نہیں رہی تو پھر وزیراعظم کی عمر کہاں ہے؟ وزیراعظم تو جوان کو ہونا چاہئے تاکہ کوئی تبدیلی آ سکے۔ اس عمر میں آپ تبدیلی کیسے لائیں گے۔ پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لائیں پھر انقلاب آسان ہو جائے گا۔"
یہ تو کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ اگر شادی کی عمر نہیں تو بندہ وزیر اعظم  نہں بن سکتا- جہاں تک نوجوان وزیر اعظم کی بات ہے تو اب تک کتنے نوجوان وزیراعظم بنے ہیں؟ جوان بندہ "حقِ زوجیت" اچھی طرع ادا کر سکتا ہے شاید اسی پر قیاس کرکے مصنف نے عمر بارے لکھا ہے- حالانکہ اب تک اس قوم کے نکاح میں جتنے لیڈران آئے ہیں انھوں نے "حقِ زوجیت" تو  اچھی طرع ادا کیا لیکن فوم کو "نان نفحہ" نہیں دیا- اس قوم کو اب  "نان نفحے" کی زیادہ ضرورت ہے- اور تبدیلی لانے کے لیے عمر سے زیادہ نیت کا ٹھیک ہونا ضروری ہے- اور بندے کو بندے کا "پُت" ہوتا لازمی ہے- اور اگر تبدیلی سے مراد بڑی پارٹیوں کی طرع " ہلا لالا " مچانا ہے تو خاں صاب ناں ہی تبدیل ہو تو اچھا-
اکثر شادی شدہ حضرات بیوی کے "تھلے" لگے ہوتے ہیں- اسی لیے انھیں "تھلے" لگنے میں کوئی آر محسوس نہیں ہوتا- پاکستان کا امریکہ کے "تھلے" لگ کر رہنے کی اک بڑی وجہ وزیرِ اعظم کا شادی شدہ ہونا بھی ہے- اس لیے یہ تو خان صاب کی خوبی ہے- ہوسکتا ہے خان پر بیوی کا دباؤ نہ ہو تو امریکہ کہ "تھلے" بھی نہ لگے- دوسری بات یہ کہ آپ "رشتہ" تلاش کرکے رکھیں- ہم سوشل میڈیا پر خان سے کہیں گئے کہ اپنی شادی کے معاملے پر بھی پارٹی الیکشن کے ساتھ ساتھ ووٹنگ کروالیں-
مزید فرماتے ہیں " آپ کے پاس تجربے کرنے کا وقت نہیں اور نہ ہی ہمارے میں ہمت ہے کہ ہم مزید تجربات اپنے اوپر برداشت کریں "- مزید تجربات برداشت نہیں کر سکتے تو یہ جو اب تک تجربات ہو چکے ہیں ان سے ہم کون سے چاند پر کمندیں ڈال چکے ہیں جو اب آپ مزید کے لئے نہ کر رہے ہیں-
آخر میں لکھتے ہیں- "۔ آپ اپنے ننھے بچوں کولندن سے واپس لا کراگرٹاٹ سکول میں پڑھائیں گے تو پھر ہی انقلاب آئے گا کیونکہ پھر امیر اور غریب کے بچے کے مابین تفریق ختم ہو جائے گی اور یہی انقلاب کی پہلی سیڑھی ہے"-
یہ وہ اعتراض ہے جو ہم اس وقت سے سن رہے ہیں جب ہم خود ٹاٹ سکولوں میں پڑھا کرتے تھے- نامرادو یہ کیوں کہتے ہو کہ اپنے بچے ادھر ٹاٹ سکول میں پڑھاہیں- یہ کیوں نہیں کہتے کہ ادھر ایسے سکول بناو جن کا معیار لندن کے سکولوں جیسا ہو- اب یہ کیوں کہیں کیوں کہ اس میں تو کام کرنا پڑے گا اور جن کے لفافے کے زور پر یہ "سڑ راہے" ان کا منشور کام کرنا تھوڑی ہے ان کا کام تو " لٹو اور فیر آ کے لٹو"- اور امیر کے بچے کو ٹاٹ پر کیوں بٹھا رہے ہو- غریب کے بچے کو اچھی جگہ کیوں نہیں دیتے- لیکن ذہن ہی یہ ہے غریب، غریب پیدا ہو، غریب جوان ہو اور غربت میں ہی مر جائے- وڑھ جائے-
"ساڈا خان آوے ای آوے" :)