اس وقت شاید جوانی کا آغاز ہی تھا جب چوہڑوں کی لڑکی اور میں سڑک پر ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے کسی اور نے تو کچھ نہ کہا لیکن اگلی صبح ابا جی کے دربار میں حاضری ہو گئی - اک چارپائی پر ابا جی بیٹھے تھے اور سامنے والی پر میں اور اماں جی - اماں جی کا اس مقدمے میں کوئی رول نہیں تھا- یہ ہمارا بچپن سے دیکھا ہوا تھا کہ فیصلے, لین دین, رشتے داروں میں آنا جانا, رکھ رکھاو کے سارے معاملوں میں ابا جی کی چلتی تھی-
صبح صبح ہی جب یہ پیشی ہوئی تو چور کی داڈھی میں تنکے والے محاورے کے مطابق اندازہ تو ہو گیا تھا کہ بات چوہڑوں کی لڑکی کے مطلق ہی ہونی ہے - بات کو ٹالا تو جا سکتا تھا اک دو دن لیکن ابا جی نے بھی اسی گھر مین رہنا تھا اور میں نے بھی -
حکم آیا تو سہمے سہمے جا بیٹھے - پہلا سوال ہی یہ ہوا:
"یہ چوہڑوں کی کڑی کچھ زیادہ ہی اچھی نہیں لگنے لگی تمھیں "
میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ " چوہڑے کون سے انسان اور مسلمان نہیں ہوتے "-
اس کے بعد جو ہوا وہ تو اک لمبی کہانی ہے - آج برسوں بعد یہ کہانی یاد اس لیے آئی کہ اک اور چوہڑی میری زندگی میں کہیں سے وارد ہوئی اور انجانے میں مجھے پھر برسوں پہلے والے دوراہے پر چھوڑ گئی ہے-
وہ میرے دفتر میں کام کرتی تھی بس چار لوگوں کے آفس میں پانچویں وہ تھی - کام تو اس کا فون سننا اور کسی کو فوٹو کاپی یا سکین کی ضرورت ہوتی وہ اپنے کیمپوٹر سے لگے تھری ان ون پرنٹر سے یہ کام کر دیتی - خوبرو بھی اتنی نہیں تھی - لیکن بلکل عام نین نقش بھی نہ تھے - عمر کوئی ہو گی انیس بیس سال - اس کا گھرانہ جھگیوں میں رہتا تھا اب مجھے نہیں معلوم وہ کیسے بارہ جماعتیں پڑھ گئی تھی اور اوپر سے ابھی اس کی شادی تو دور منگنی بھی نہیں ھوئی تھی - جھگیوں رہنے والوں کے حساب سے دونوں عجیب باتیں تھیں -
دفتر میں وہ اک زندہ دل اور ہردلعزیز لڑکی تھی - غصہ کم ہی کرتی تھی لیکن جب کر لیتی تو اسے راضی کرنا جان جوکھوں کا کام تھا - میرے ساتھ دوسروں کی نسبت وہ تھوڑی زیادہ علیک سلیک تھی - وہ اپنے گھر اور گھر کےلوگوں کی باتیں بھی سنا لیتی تھی -
چند روز پہلے اس کا باس سے کسی بات پر تو تکرار ہو گیا - وہ ہمیں تو پتا چلا جب دوپہر کے کھانے پر اس نے اعلان کیا میں اگلی پہلی سے نوکری چھوڑ رہی ہوں –
بس پھر پہلے تو کوئی کہ رہا تھا نئی نوکری مل گئی؟
کتنی تنخواہ ہے؟
اس سے ڈھنگ کی پوسٹ ہے ؟
میں نے کہا کہیں ہاتھ تو پیلے نہیں رہے تمھارے ؟
لیکن اس دوران اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو چکے تھے - سب سنجیدہ ہو گئے اور ہمدری میں مسلے مسائل پوچھنے لگے –
آخر اس نے چپ توڑی اور بتایا کہ باس سے لڑائی ہو گئی ہے –
ہم جو روز باس سے لڑتے تھے اور اکثر جھڑکیاں بھی لیتے تھے ہمارے لیے اس کا یہ فیصلہ عجیب تھا - خیر سمجھانے بجھانے اور قائل کرنے کی سب نے کوشش کی - اور بتایا کہ دفع کرو اس بات نوکرئیوں ایسی بک بک تو ہوتی ہے - سب نے اپنے جھگڑوں اور جھڑکیوں کی مثالیں دئیں - لیکن اس نے نہیں ماننا تھا اور نہ ہی وہ مانی - اور پہلی کو سچ مچ وہ نوکری چھوڑ گئی -
اس کے جانے کے پہلے دو تین دن تو میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ چھٹیوں پر ہے اور واپس آ جائے گی - لیکن جب پورا ہفتہ وہ نہ آئی وہ آفس میں یہ خبر پکی جو گئی کہ اس نے نوکری چھوڑ دی ہے -
پتا نہیں کیوں اور کیسے اگلے ہفتے سے میرا دل اچاٹ سا رہنے لگا - کھانا کم ہو گیا, باتیں کم ہو گئیں - یہ بات ساتھ کام کرنے والوں نے بھی محسوس کی اور اک دو نے تو اظہار بھی کر دیا - جب واقعات کا جائزہ لیا تو پتا چلا. عالیہ کی محبت نے دل میں ڈیرے ڈال لیے ہیں اور میرا حال بھی اس شخص جیسا تھا جسے "جب معلوم ہوا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے اسے مرے ہوئے تیسرا دن تھا – "
میں اس محبت کا اظہار اور اقرار بھی کسی سے نہیں کر سکتا تھا اب میں وہ بیس سال پہلے والا جوان نہیں تھا - اب میں نمبر داروں کے بیٹے کے ساتھ ساتھ ایم فل ٹیلی کام انجینر تھا- اور اپنے گاؤں کا پہلا انجینر تھا اور اپنے خاندان میں تو اگلے دس برس میں بھی کوئی اتنا پڑھا ہوا نظر نہیں آ رہا تھا - اگلے تین ہفتوں میں جہاں بے چینی نے اک پل چین نہ لینے دیا وہاں صحت بھی گراوٹ کا شکار ہو گئی - اس سے رابطے کی بھی کوئی سیبیل نہیں کیونکہ موبائل فون اس کے پاس نہیں تھا - دوسرا اگر کوئی سیبیل ہوتی بھی تو یہ معلوم نہ تھا کہ محبت کی یہ لت یک طرفہ ہے کہ دو طرفہ - کیونکہ جب تک ساتھ تھے اور اس موضع کے بارے اک دفعہ بھی کنایاً بھی بات نہیں ہوئی تھی -
بہت سے افسانے اور کہانیاں لکھی بہت پہلے جا چکی ہوتی ہیں لیکن وہ بتتی وہ بعد میں ہیں اور عالیہ بھی غلام عباس کے "فراموش" کی طرع مجھ پر بیت گئی-
اب اپنے معاشرتی مقام کی وجہ سے مجنون بھی نہیں بنا جا سکتا بس ایسے ہی کبھی کبھی دل سے دعا نکلتی ہے کہ کاش اس معاشرے میں سب انسان بستے اور کوئی چوہڑہ نہ ہوتا-