Wednesday, February 6, 2013

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

اس ملک میں دو چیزوں کا حساب اگر جنات کو بھی رکھنا پڑے تو وہ بھی دوسرے دن نوکرئیوں سے استیفا دے کر اپنے بال بچے میں جاکر چین سے رہیں- اک چیز تو ہے کرپشن اور دوسرا سی این جی اسٹیشنوں کا منافع- ان کا حساب کرنے کے لیے آئی بی ایم کے  سپر کمپیوٹر بھی چکرا کر" سڑ سڑو" جاہیں-
عام آدمی کے بھلے کا کام حکم اگر کہیں سے آ بھی جائے تو ہزاروں "بھگیاڑ" راستے میں گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ عام کی بجائے یہ بھی ہمارے پیٹ میں چلا جائے، اور عوام رہ جایئں "روتے کرلاتے"- چند سالوں سے سی این جی اسٹیشن لگانا ایک کامیاب بزنس بنا ہوا ہے- اک وقت تھا کہ یہ پتہ چلانا مشکل ہو گیا تھا کہ ملک میں بچے پیدا ہونے کی رفتار زیادہ ہے یا سی این جی اسٹیشن لگنے کی-
جیسے جیسے ملک "ترقی" کی منازل طے کرتا گیا اور بجلی "آنے" کا وقت، بجلی "نہ آنے" کے وقت سے کم ہوتا گیا – تو اسٹیشن مالکان نے بڑے بڑے جنریٹر رکھ لئے اور ہر جگہ " آیئں آپ کو پھر سے جوان بنا دئیں" کے اشتہاروں کی طرع یہ لکھا نظر آنے لگا "جنریٹر کی سہولت میسرہے"-
جب حکومت کی نظر میں یہ سستا ایندھن کھٹکنے لگا تو اس نے فیصلہ کیا کہ اس قیمت کو پیٹرول کے 60٪ کیا جائے گا اور ساتھ ہی ساتھ ہفتے میں تین دن ہی سی این جی ملے گی- اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے "ٹٹے چھتر" کی طرع سی این جی کی قیمت 40 روپے فی کلو سے 88 روپے فی کلو تک جا پہنچی- اس دوران جناب جیریٹر اور ڈسکاؤٹ ملتے رہے اور اسٹیشن اپنے پوری پیداواری صیلاحیت پر چلتے رہے-
پھر سپریم کورٹ نے جب اس کا نوٹس لیا تو اوگرا کے کرتے دھرتے کوئی جواب نہ پیش کرسکے کہ 20 روپے لاگت والا ایندھن 88 روپے میں کیوں فروخت ہو رہا ہے- اس دوران یہ بھی انکاشاف ہوا کہ کوئی 38 روپے فی کلو گرام سی این جی اسٹیشن مالکان کو ادا کیا جا را ہے کچھ منافع کی مد میں اور کچھ  پیداواری لاگت کی مد میں- خیر اوگرا کے صابان نے "آپو آپ" قیمت کم کرکے 54 روپے مقرر کر دی- بس پھر کیا تھا کہ سی این جی ایسوسی ایشن کے پیٹ میں مڑوڑ اٹھنا شروع ہو گئ-
اب جناب وہ رونا مچایا ان مگرمچھروں نے کہ رہے رب کا نام- صرف رونا ہی نہیں جنریٹر بند ہو گئے- ادھر بجلی بند ادھر گیس کی فراہمی بند۔ جہاں ایک ایک اسٹیشن پر آٹھ آٹھ میشینیں کام کرتی تھیں صرف ایک یا دو میشین سے گیس بھری جاتی- اور ساتھ ہی ساتھ سینہ زوری کرتے ہوتے گیس فراہمی والے دن بھی اسٹیشن بند کرنا شروع ہو گئے- اور مطالبہ ہونے لگا کہ ریٹ بڑھاؤ-  مذکرات ہوتے رہے اور ریٹ پر مک مکا نہ ہو سکا- سی این جی ایسوسی ایشن کا مطالبہ کہ عوام کو سستی گیس دینے کی بجائے ہمارا منافع بڑھاؤ-
اسی دوران سردی شروع ہو گئ اور ایس این جی پی ایل نے سی این جی اسٹیشن غیر معیانیہ مدت کے لئے بند کر دیے- اب ہم نے تو اوکھے سوکھے پیٹرول پر گذارہ کرلیا- اب جناب ،  سی این جی ایسوسی ایشن کی تو "بھاں" کی بول گئ ہے- پرسوں غیاث پراچہ صدر سی این جی ایسوسی ایشن جن کو غیاث پٹاخہ کہنے کو دل کرتا ہے – پریس کانفرنس میں رہ پڑے ہیں کہ جی سی این جی کا پرانا تین روزہ شیڈول بحال کیا جائے نہیں تو ہم دھرنہ دیں گے اور احتجاج کریں گے- اس بار غیاث صیب نے قیمت کے بارے کوئی ارشاد نہیں فرمایا- لیکن مزے تو بات ہے چند دن پہلے تک صرف قیمت بڑھانا ہی اک مسلہ تھا- شاید اسی بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا –
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

4 comments:

  1. بھائی جان
    سردیوں میں مولیاں کھانے سے کام نی چل سکتا۔
    گیس تو گیس ہی ہوتی ہے۔
    مسالے والی ہو یا بغیر مسالے والی

    ReplyDelete
    Replies
    1. بس اسی طرع کا حل نکالا جاتا ہے ہر مسلے کا ادھر، اب آپ سے کیا پردہ آپ خود جانتے ہیں :)

      Delete
  2. اصل مسئلہ ملک میں گیس کے کم ہوتے ہوئے ذخائر اور طلب کی بڑھتی ہوئی شرح ہے۔ بینکوں نے آج سے کوئی چھ سال قبل سی این جی کے شعبے میں سرمایہ کاری بند کر دی تھی

    ReplyDelete
    Replies
    1. بھائی جان اصل مسلہ یہی ہے کہ کوئی مستقبل کے مسلے کا حل تو دور کی بات اسے مستقل مسلہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں

      Delete