Friday, February 1, 2013

سر راہے، سڑراہے

لو جی لکھنی تو ہم نے اردو کانفرنس کی دوسری قسط تھی لیکن کافی لوگ اس پر طبع آزمائی کر چکے ہیں اور آپ کو دوسری قسط کا اتنا انتظار نہیں ہوگا –لیکن دوسری قسط آئے گی ضرور بشرطِ زندگی-
کہتے ہیں برسات کے اندھے کو ہرا ہرا ہی نظر آتا ہے- اور اسی سے ملتی جلتی بات میں بھی آج کہہ رہا ہوں کہ تعصب کے اندھے کو سڑا سڑا ہی نظر آتا ہے- معاملہ کچھ یوں ہے کہ "نوائے وقت" کو نظریہ پاکستان اور پاکستانی اقدار کا علمبرار گردانا جاتا ہے- اب اگر نہیں تو میرے سے پہلے والی نسل یہی بات سمجھتی تھی-  اب جیسے جیسے نظریہ پاکستان "کھوہ کھاتے" میں ڈالا جا رہا ہے بلکہ ڈالا جا چکا ہے تو "نوائے وقت" نے بھی مسلم لیگ "نون" کو ہی "نظریہ پاکستان" سمجھ لیا ہے-
اس طرع کا سڑا ہوا تعارف کروانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ مذکورہ  اخبار میں "سر را ہے" کہ عنوان سے اک کالم لکھا جاتا ہے جس میں ہلکے پھلکے انداز میں مٹی پلید کی جاتی ہے- لیکن کل (31-01-13) کے کالم میں اسطرع بے تکی باتیں لکھی ہوئی تھیں کہ بس جی، یہی لگا لکھنے والے کی آنکھوں پر یا تو لفافہ باندھا گیا وہ بھی اتنا موٹا کہ نظر نہ آئے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے- یا پھر تعصب میں اتنا اندھا ہو گیا کہ اسے اچھی بھلی بات بھی سڑی ہی لگی- یہ بات تو اردو کانفرنس میں بھی ہوئی تھی کہ اک تو مین سٹریم میڈیا " میڈیا مالکان" کی پالیسی سے باہر جا کر کچھ نہیں لکھ سکتے ہیں اور دوسرا اس حمام میں بھی اکثر لوگ ننگھے ہیں اور اپنے گرد لفافوں کی، پلاٹوں کی،مفتے حج ،عمر کی ، یا پالیسی کی 'بکل' مارے ہوئے ہیں-  
اپنے عمران بھائی ہیں ناں- جی جی وہی ورلڈ کپ اور شوکت خانم ہسپتال والے- ابھی بھی نہیں سمجھ آئی "تحریک انصاف" والے یار- ان سے کسی نے پوچھا کہ خان صاب شادی کا کیا ارادہ ہے تو خان صاب نے کہہ دیا کہ اب شادی کی عمر نہیں رہی- خان صاب نے یہ کہہ کر "مرد اور گھوڑا کبھی بوڑھے نہیں ہوتے"، اس کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی یا پھر یہ کہاوت خان صاب نے سنی نہیں ہوگی- لیکن اس کی جو سب سے بڑی وجہ مجھے لگ رہی ہے کہ شادی اکثر بندے اک دفعہ ہی کرکے اسے نبھاتے نبھاتے "نبھ" جاتے ہیں- اور جو آزاد ہو جاتے ہیں وہ دوبارہ اس کا نام کم ہی لیتے ہیں- بہرحال جو وجہ بھی ہو  خان صاب بہتر جانتے ہیں- کوئی حکیمی مسلہ بھی ہو سکتا ہے-
اس سادہ سی بات پر "سر را ہے" جسے "سڑ را ہے" کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے یوں راقم ہوا ہے- " شادی کی عمر اگر نہیں رہی تو پھر وزیراعظم کی عمر کہاں ہے؟ وزیراعظم تو جوان کو ہونا چاہئے تاکہ کوئی تبدیلی آ سکے۔ اس عمر میں آپ تبدیلی کیسے لائیں گے۔ پہلے اپنے آپ میں تبدیلی لائیں پھر انقلاب آسان ہو جائے گا۔"
یہ تو کہیں بھی نہیں لکھا ہوا کہ اگر شادی کی عمر نہیں تو بندہ وزیر اعظم  نہں بن سکتا- جہاں تک نوجوان وزیر اعظم کی بات ہے تو اب تک کتنے نوجوان وزیراعظم بنے ہیں؟ جوان بندہ "حقِ زوجیت" اچھی طرع ادا کر سکتا ہے شاید اسی پر قیاس کرکے مصنف نے عمر بارے لکھا ہے- حالانکہ اب تک اس قوم کے نکاح میں جتنے لیڈران آئے ہیں انھوں نے "حقِ زوجیت" تو  اچھی طرع ادا کیا لیکن فوم کو "نان نفحہ" نہیں دیا- اس قوم کو اب  "نان نفحے" کی زیادہ ضرورت ہے- اور تبدیلی لانے کے لیے عمر سے زیادہ نیت کا ٹھیک ہونا ضروری ہے- اور بندے کو بندے کا "پُت" ہوتا لازمی ہے- اور اگر تبدیلی سے مراد بڑی پارٹیوں کی طرع " ہلا لالا " مچانا ہے تو خاں صاب ناں ہی تبدیل ہو تو اچھا-
اکثر شادی شدہ حضرات بیوی کے "تھلے" لگے ہوتے ہیں- اسی لیے انھیں "تھلے" لگنے میں کوئی آر محسوس نہیں ہوتا- پاکستان کا امریکہ کے "تھلے" لگ کر رہنے کی اک بڑی وجہ وزیرِ اعظم کا شادی شدہ ہونا بھی ہے- اس لیے یہ تو خان صاب کی خوبی ہے- ہوسکتا ہے خان پر بیوی کا دباؤ نہ ہو تو امریکہ کہ "تھلے" بھی نہ لگے- دوسری بات یہ کہ آپ "رشتہ" تلاش کرکے رکھیں- ہم سوشل میڈیا پر خان سے کہیں گئے کہ اپنی شادی کے معاملے پر بھی پارٹی الیکشن کے ساتھ ساتھ ووٹنگ کروالیں-
مزید فرماتے ہیں " آپ کے پاس تجربے کرنے کا وقت نہیں اور نہ ہی ہمارے میں ہمت ہے کہ ہم مزید تجربات اپنے اوپر برداشت کریں "- مزید تجربات برداشت نہیں کر سکتے تو یہ جو اب تک تجربات ہو چکے ہیں ان سے ہم کون سے چاند پر کمندیں ڈال چکے ہیں جو اب آپ مزید کے لئے نہ کر رہے ہیں-
آخر میں لکھتے ہیں- "۔ آپ اپنے ننھے بچوں کولندن سے واپس لا کراگرٹاٹ سکول میں پڑھائیں گے تو پھر ہی انقلاب آئے گا کیونکہ پھر امیر اور غریب کے بچے کے مابین تفریق ختم ہو جائے گی اور یہی انقلاب کی پہلی سیڑھی ہے"-
یہ وہ اعتراض ہے جو ہم اس وقت سے سن رہے ہیں جب ہم خود ٹاٹ سکولوں میں پڑھا کرتے تھے- نامرادو یہ کیوں کہتے ہو کہ اپنے بچے ادھر ٹاٹ سکول میں پڑھاہیں- یہ کیوں نہیں کہتے کہ ادھر ایسے سکول بناو جن کا معیار لندن کے سکولوں جیسا ہو- اب یہ کیوں کہیں کیوں کہ اس میں تو کام کرنا پڑے گا اور جن کے لفافے کے زور پر یہ "سڑ راہے" ان کا منشور کام کرنا تھوڑی ہے ان کا کام تو " لٹو اور فیر آ کے لٹو"- اور امیر کے بچے کو ٹاٹ پر کیوں بٹھا رہے ہو- غریب کے بچے کو اچھی جگہ کیوں نہیں دیتے- لیکن ذہن ہی یہ ہے غریب، غریب پیدا ہو، غریب جوان ہو اور غربت میں ہی مر جائے- وڑھ جائے-
"ساڈا خان آوے ای آوے" :)

9 comments:

  1. جناب سکول چاہے ٹاٹ والا ہو یا لش پش عمارت والا اگر فیکلٹی اچھی نہیں اور پڑھانے کا جذبہ نہیں تو پھر سب کھوہ کھاتا ہے۔جذبہ پلیز

    ReplyDelete
    Replies
    1. ریاض بھائی آپ نے بلکل بجا فرمایا- یہ تو بس اس لیے لکھا کہ اچھے اساتذہ کے ساتھ ساتھ اچھی سہولیات بھی ملنا چاہیے- کچھ اچھا اوا بہتر

      Delete
  2. بہت شُکریہ آپ کا کیا دور یاد کروا دیا جاب ہم نوائے وقت کو پاکستان اور نظریہ پاکستان کا ترجمان سمجھتے ہوئے پڑہتے تھے اور بحُٹو اور اُس کے خاندان کو گالی دینا فرض سمجھتے تھے۔ مگر اب حالات بدل گئے ہیں پر وہ لوگ وہیں پر ہیں اور اُن کے سپانسر بھی وہی پُرانے ہیں جو کہ اپنی لیگ کو پاکستان کا حقیقی وارث سمجھے بیٹھے ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ جناب نے پڑھ کر اپنی رائے سے نوازا- بس جی دعا کریں اور کوشش کریں اللہ تعالی ہمیں دنیا اور آخرت میں مسلمانوں کا سامقام دے-

      Delete
  3. کس نےکہا تھا نوائے وخت پڑھا کریں
    :p
    جب ہم دوسری جماعت میں تھے تب ہی ہمیں پتہ لگ گیا تھا کہ اخبار کا نظریہ کیا ہے
    :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. خریدنے کا کشٹ تو کبھی نہیں - بس اک دوست گھر دیکھنے کو مل گیا :)

      Delete
  4. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  5. ر راہے کا سواد اسی وقت تک تھا جب بابا وقار انبالوی اور بعد میں محمد سلیم صاحب لکھتے رہے۔ اب تو سر راہے کا معیار بالکل ختم ہو چکا ہے بلکہ تباہ ہو چکا ہے۔ نہ کوئی مزاح، نہ کوئی نکتہ آرائی، نہ اخلاقی اقدار کا پاس, آپ نے سڑ راہے بالکل ٹھیک لکھا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. عامر بھائی شکریہ بس اب تو کچھ ایسا ہی جو آپ نے فرمایا

      Delete