اندھے کو کوئی دکھا نہیں سکتا
بہرے کو کوئی سنا نہیں سکتا
تاریخ کے چوراہے پر سونے والے کو
چھترول سےکوئی اٹھا نہیں سکتا
مالک لگائیں گھر کو آگ خود
وہ گھر کوئی بچانہیں سکتا
الٹے لٹکے ہوئے بندروں کو
سیدھا منظر کوئی دکھا نہیں سکتا
اندھری غار کے قید چمگادڑوں کو
روشنی ہے، کوئی سمجھا نہیں سکتا
بہرے کو کوئی سنا نہیں سکتا
تاریخ کے چوراہے پر سونے والے کو
چھترول سےکوئی اٹھا نہیں سکتا
مالک لگائیں گھر کو آگ خود
وہ گھر کوئی بچانہیں سکتا
الٹے لٹکے ہوئے بندروں کو
سیدھا منظر کوئی دکھا نہیں سکتا
اندھری غار کے قید چمگادڑوں کو
روشنی ہے، کوئی سمجھا نہیں سکتا
اپنے آپ لکھا نا؟
ReplyDeleteیا کاپی پیسٹ کرا؟؟
اپنے آپ لکھا ہے- اب میں چیک کیا کروں کہ دوست رائے دینا شروع ہو گئے ہیں میرے بلاگ پر بھی- دیر کے لیے معذرت
Delete
ReplyDeleteاندھے کو کوئی دکھا نہیں سکتا
بہرے کو کوئی سنا نہیں سکت
واہ ۔۔ شاعر کون ہیں؟۔
جاوید بھائی فدوی بقلم خود ہے
Deletewah! mally aalyo munday ko daad di jaye
ReplyDeleteبڑی مہربانی :)
Deleteہمارے اعمال ہی ایسے ہیں کہ شاعری سی نازک شے میں بھی چھترول آنے لگی ہے۔ پر گل تا سچ ای اے
ReplyDeleteبس حق سچ کی بات ہونی چاہیے- وہ شاعری ہو نثر ہو:)
Deleteابھی زندہ ہیں کاپی پیسٹ کرنے والے
ReplyDeleteانہیں کوئی شاباش دلا نہیں سکتا
یہ کاپی پیسٹ والا شعر کس کے لیے ہے ؟
Delete